وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ توانائی کے شعبے میں مجھ سمیت کسی بھی پالیسی ساز نے یہ نہیں کہا کہ حکومت نیٹ میٹرنگ ختم کرنے لگی ہے، جن نرخوں پر معاہدہ ہوا ہے انہی نرخوں پر خرید و فروخت کی جائے گی لیکن آئندہ کیا ہو گا اس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ڈان نیوز کے مطابق سینیٹ کا اجلاس قائم مقام چئیرمین سیدال خان ناصر کی زیر صدارت شروع ہوا جس میں ایوان بالا میں ایرانی صدر کے انتقال پر تعزیتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔
قرراداد میں کہا گیا کہ ایرانی صدر عظیم لیڈر اور پاکستان کے قریبی دوست تھے۔
سینیٹ میں وقفہ سوالات کے دوران وزارت ریلوے نے تحریری جواب جمع کرایا جس میں بتایا گیا کہ مالی سال 23-2022 میں ریلوے کی آمدن 63 ارب روپے تھی، وزارت ریلوے کو فنانس ڈویژن سے 47 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔
تحریری جواب میں بتایا گیا کہ ریلوے نے تنخواہوں اور پنشن پر 74 ارب روپے سے زائد ادا کیے، ریلوے نے بجٹ کے 67 فیصد سے زائد تنخواہوں اور پنشن پر ادا کیے جبکہ 35 ارب روپے تنخواہوں اور تقریباً 39 ارب پنشن کی مد میں ادا کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریلوے میں مرمت اور بحالی پر 26 ارب روپے خرچ ہوا اور 2016 سے نئی پنشن پالیسی پی ایم پیکج کی وجہ سے پنشن میں بھاری اضافہ ہو چکا ہے۔
اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ ریلوے کے گزشتہ پانچ سالوں میں 537 حادثات ہوئے جن میں 313 میں جانی نقصان ہوا یا مسافر و دیگر افراد شدید زخمی ہوئے۔
وزارت ریلوے کے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ مٹیریل کی خرابی کے باعث 217 اور ان مینڈ لیول کراسنگ کی وجہ سے 172 حادثات ہوئے، انسانی غلطی کے باعث 103 اور سبوتاژ کیے جانے کے سبب 7 حادثات ہوئے، قدرتی افات کے سبب 6 اور دیگر وجوہات کے باعث 28 حادثات ہوئے۔
اس موقع پر بطور پریذائیڈنگ آفیسر پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے قائم مقام چیئرمین کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت شروع کردی۔
پیپلز پارٹی کی قرۃ العین مری نے توجہ دلاؤ نوٹس میں سولر انرجی صارفین پر لگائے ٹیکس کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے گرین انرجی کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں 16 سے 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، ایک طرف سرکار کہتی ہے کہ ناکافی بجلی کی وجہ سے شارٹ فیل ہے، دوسری طرف سرکار کہتی ہے کہ ہم ایکسپورٹ کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بجلی کے ستائے عوام سولر لگانے کی طرف جاتے ہیں تو سرکار کہتی ہے کہ ہم سولر پر بھی ٹیکس لگا رہے ہیں، پاکستان کو پہلے ہی ان عوام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے، نہ لوگ بجلی افورڈ کر سکتے ہیں اور نہ اب سولر افورڈ کر سکیں گے۔
اس موقع پر وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ دو چیزیں میں تاریخی طور پر آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں، 2017 میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت میں جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے تو اس وقت نیٹ میٹرنگ کا آغاز ہوا تھا اور پچھلے 5، 6 سال سالوں میں اس کی اچھی گروتھ ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اب تک ایک ہزار 500 میگا واٹ کی توانائی کی سرمایہ کاری لوگوں نے خود کی ہے، ملک میں ایک لاکھ 13ہزار سے زائد نیٹ میٹرنگ کے کنکشن ہیں اور پچھلے دو سالوں کے دوران اس میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر سولر پینل کی بے انتہا سپلائی کی وجہ سے اس کی قیمت میں بے انتہا کمی آئی ہے، آج سے دو سال پہلے 115 فی میگا واٹ کے سولر پینل کی قیمت اس وقت 45 روپے پر آ چکی ہے، انورٹر، فریم وغیرہ کی قیمت لگائیں تو اس وقت سولر کی سرمایہ کاری کرنے سے اچھا ریٹرن ملتا ہے۔
اویس لغاری نے کہا کہ پچھلے دو مہینے میں جب سے یہ حکومت آئی ہے، توانائی کے شعبے میں مجھ سمیت کسی بھی پالیسی ساز نے یہ نہیں کہا کہ حکومت نیٹ میٹرنگ ختم کرنے لگی ہے، اخبارات میں آرٹیکل آنا شروع ہوئے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے میں نیٹ میٹرنگ کے بجائے گروس میٹرنگ سے تبدیل کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، عالمی ادارے سے ان چیزوں پر بات ہی نہیں کی جاتی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں دو دن قبل لاہور میں پریس کانفرنس میں اس حوالے سے ایک واضح بیان دیا تھا جس کی خبر ڈان اخبار میں بھی شائع ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود کل شام میڈیا میں اس حوالے سے رپورٹس چلی جا رہی ہیں کہ ہم سرمایہ کاروں کے مفادات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے سولر لگائے ہوئے ہیں ان کا نیپرا سے پانچ سے 7 سال کا معاہدہ ہے کہ جن نرخوں پر معاہدہ ہوا ہے انہی نرخوں پر خرید و فروخت کی جائے گی، اب بات یہ کہ آئندہ کیا ہو گا تو ابھی ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس حوالے سے کچھ کہہ سکیں۔
اس مرحلے پر سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے انتہائی تشویشناک خبر ملی ہے کہ ہماری پارٹی کے ترجمان رؤف حسن پر حملہ کر کے زخمی کیا گیا ہے، ہم چاہیں گے کہ یہاں موجود وزیر قانون اس پر اپنا ردعمل دیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی سنگین واقعہ ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی جماعت کے ترجمان پر حملہ کیا جاتا ہے، یہ ناقابل برداشت ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وزیر قانون اس پر اپنی رائے دیں اور اپنا آرڈر دیں۔
اس موقع پر شبلی فراز کے ساتھ بیٹھے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم یہاں سے واک آؤٹ کر رہے ہیں ، ہم یہاں نہیں بیٹھیں گے جب تک وزیر قانون اس پر بات نہیں کرتے۔
وزیر قانون نے کہا کہ اس سلسلے میں آئین کے مطابق کارروائی کر کے رؤف حسن کو پوری سہولت فراہم کی جائے گی۔
ایوان میں مولانا عطا رحمٰن نے اظہار خیال کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ سینٹ مکمل نہیں لہٰذا سینیٹ کو مکمل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں الیکشن ابھی تک نہیں ہوئے، آخر خیبر پختونخوا کو نمائندگی سے کیوں محروم کیا جا رہا ہے۔
وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والوں کا حلف نہیں لیا گیا اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امید کرتے ہیں تین جون کو سپریم کورٹ معاملہ کو دیکھے گی، سپریم کورٹ نے معاملہ پر لارجر بینچ کا کہا ہے، ایوان میں اس وقت خیبر پختونخوا کے 11 ممبرز موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ سپریم کورٹ تین جون سے روزانہ سماعت کے بعد اس کا فیصلہ کرے گی جس کے بعد کے پی میں سینیٹ الیکشن ہوں گے۔