’میرے موکل درویش آدمی ہیں‘: خلیل الرحمان قمر کے اغوا برائے تاوان کا مقدمہ، ملزمہ کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع

Pinterest LinkedIn Tumblr +

پاکستانی ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر کے مبینہ ہنی ٹریپ اور اغوا برائے تاوان سے جڑے مقدمے میں ملزمہ کے جسمانی ریمانڈ میں دو روز کی توسیع کی گئی ہے۔

21 جولائی کو لاہور کے تھانہ سندر میں درج مقدمے میں خلیل الرحمان قمر نے ایک خاتون سمیت دیگر ملزمان پر اغوا، بلیک میلنگ اور گن پوائنٹ پر آئی فون کے ساتھ ساتھ ڈھائی لاکھ روپے سے زیادہ کی رقم ہتھیانے کا الزام عائد کیا تھا۔

کورٹ رپورٹرز وقاص اعوان اور ارشد علی نے بی بی سی کی نامہ نگار ترہب اصغر کو بتایا ہے کہ اس کیس کی سماعت لاہور کی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں ہوئی جہاں ملزمہ کے وکیل نے دلائل دیے کہ وہ ہنی ٹریپ کے کسی بھی واقعے میں ملوث نہیں تھیں اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی ثبوت موجود ہے۔

وکیل نے دعویٰ کیا کہ خود ملزمہ کو ہنی ٹریپ کیا گیا تھا۔

صحافی وقاص اعوان کے بقول ایک موقع پر ملزمہ کمرۂ عدالت میں آبدیدہ ہوگئیں اور بتایا کہ انھوں نے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے ماڈلنگ شروع کی تھی۔

ملزمہ نے دعویٰ کیا کہ انھیں خود اس معاملے میں پھنسایا گیا ہے اور یہ کہ انھوں نے کوئی رقم حاصل نہیں کی مگر اس کے باوجود انھیں بلیک میل کیا جا رہا ہے۔

ایک موقع پر خلیل الرحمان قمر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل ’درویش آدمی ہیں۔‘

اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ ’درویش آدمی تو صبح چار بجے تہجد پڑھ رہا ہوتا ہے۔ یہ کیسا درویش آدمی ہے؟‘

بعد ازاں خلیل الرحمان قمر کے وکیل مدثر چوہدری نے دنیا نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے عدالت کو بتایا کہ مرکزی کردار ملزمہ کا ہے اور یہ اغوا برائے تاوان کا کیس ہے۔‘

’اس کیس سے خلیل الرحمان کے علاوہ دیگر افراد کو بھی انصاف ملنے کی راہ ہموار ہوگی۔‘

وکیل مدثر چوہدری نے بتایا کہ ’میں نے جج صاحب کو وضاحت کی ہے کہ وہ (خلیل الرحمان) ایک معروف شخصیت ہیں، ڈرامہ نگار اور اداکار عموماً رات کے وقت لوگوں سے ملتے ہیں۔‘

وکیل نے بتایا کہ ڈرامہ نگار کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی جس میں وہ خود کو بچانے میں کامیاب ہوئے۔

دوسری جانب عدالت کے باہر گفتگو کرتے ہوئے ملزمہ کے وکیل سیف اللہ وڑائچ نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی موکلہ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں اور وہ بے قصور ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ملزمہ ’خود بلیک میل ہو رہی تھیں۔ متاثرہ شخص وہ ہیں، خلیل الرحمان قمر نہیں۔‘

ہنی ٹریپ کیا ہے اور خلیل الرحمان قمر کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا؟
’ہنی ٹریپ‘ یا میٹھے جال کا مطلب ہے رومانوی یا جنسی تعلق بنا کر ہدف سے پیسہ یا معلومات نکلوانا۔۔۔

پاکستان میں ہنی ٹریپ جیسے واقعات کا سرا زیادہ تر کچے کے ڈاکوؤں سے جا ملتا ہے جو محبت و شادی سمیت دیگر جھانسے دے کر اب تک کئی لوگوں کو اپنے علاقے میں بلا کر لوٹ چکے ہیں۔

تاہم مبینہ ہنی ٹریپ کا ایک بڑا واقعہ حال ہی میں لاہور میں سامنے آنے کے بعد یہ خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ ایسی واردات کرنے والے گینگ شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔

اس کی حالیہ مثال مصنف اور ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر ہیں جنھیں پولیس کے مطابق ایک گینگ نے لاہور جیسے شہر میں ہنی ٹریپ کرکے یرغمال بنایا، اس دوران ان پر تشدد بھی کیا گیا اور ان سے بھاری رقم ہتھیائی گئی۔

خلیل الرحمن قمر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈی آئی جی لاہور عمران کشور نے بتایا کہ اس کیس میں ملوث گینگ میں شامل لوگوں کا تعلق مختلف شہروں سے ہے اور’ تمام افراد ماسٹر مائنڈ حسن شاہ نامی شخص کے کہنے پر مل کر آپریٹ کر رہے تھے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ اس گینگ میں تین خواتین سمیت 12 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ ماسٹر مائنڈ ابھی بھی فرار اور اشتہاری ہے۔

ڈی آئی جی عمران کشور نے مزید بتایا کہ گرفتار ہونے والے ملزمان کا مختلف شہروں میں مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے۔ جس میں قتل، زمینوں پر قبضہ، ڈکیٹی اور دیگر جرائم شامل ہیں۔

اس گینگ کو پکڑنے والی ٹیم کے سربراہ ڈی ایس پی فیصل شریف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ابھی ان ملزمان سے مزید تفتیش کی جائے گی تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اور کتنے افراد اس گینگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔‘

police

اس گینگ کو پکڑنے والی ٹیم کے سربراہ ڈی ایس پی فیصل شریف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ابھی ان ملزمان سے مزید تفتیش کی جائے گی تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اور کتنے افراد اس گینگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔‘
پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟
اس گینگ کو پکڑنے والی ٹیم کے سربراہ ڈی ایس پی فیصل شریف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’انھوں نے ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا تھا اور خلیل الرحمان قمر کا موبائل فون بھی ری بوٹ کر دیا تھا تاکہ ان کے پاس کسی قسم کا کوئی ریکارڈ باقی نہ رہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم نے ان کا فون ریکور کیا اور اس لڑکی کی تصویر نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ آمنہ عروج نامی لڑکی کو ہم نے فیس بک پر ٹریس کیا اور پھر ہم اس جگہ پر گئے جہاں اس نے خلیل الرحمان قمر کو بلایا تھا۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ہم نے اس جگہ کی تمام سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوائی اور ملوث افراد کی نشاندہی کرکے ڈیٹا کے ذریعے ان تک پہنچے۔ جب ایک دو افراد گرفتار ہو گئے تو انھوں نے دیگر لوگوں کی بھی نشاندہی کی۔ ان کے بتائے ہوئے پتوں پر ہم نے مختلف شہروں میں چھاپے مارے جس کے نتیجے میں ان سب کو گرفتار کیا گیا۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’جب خلیل الرحمان قمر ہمارے پاس آئے تو اس واقعے کو دو دن گزر چکے تھے۔ نو اور دس محرم کی وجہ سے عام تعطیل ہوتی ہے تاہم 10 محرم کے بعد خلیل الرحمان قمر بھی صدمے سے کچھ حد تک باہر نکل آئے تھے اور اس کے بعد انھوں نے پولیس سٹیشن آکر رپورٹ درج کروائی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’گرفتار ہونے والے افراد کا تعلق لاہور، ننکانہ صاحب، شیخوپورہ اور گجرانوالہ سے ہے۔ اس واقعے کے رپورٹ ہونے کے آٹھ گھنٹے کے اندر اندر ہم نے ان 12 افراد کو گرفتار کیا جس میں ملزمہ آمنہ عروج بھی شامل ہے جس نے خلیل الرحمان قمر کو ہنی ٹریپ کیا تھا۔‘

honey trap

’ہنی ٹریپ‘ یا میٹھے جال کا مطلب ہے رومانوی یا جنسی تعلق بنا کر ہدف سے معلومات نکالنا۔۔۔

کیا شہروں میں ایسے واقعات بڑھ رہے ہیں؟

ڈی آئی جی عمران کشور کا کہنا تھا کہ خلیل الرحمان کا کیس حالیہ برسوں میں ایسا پہلا واقعہ ہے جو رپورٹ ہوا۔

’اس سے پہلے ہنی ٹریپ جیسے واقعات کچے جیسے دور دراز علاقوں میں رونما ہوتے تھے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’زیادہ تر لوگ ایسے واقعات رپورٹ نہیں کرتے کیونکہ ایک تو انھیں بدنامی کا ڈر ہوتا ہے دوسرا وہ جرائم پیشہ افراد سے ایک مرتبہ جان چھڑوا کر دوبارہ اسی کیس میں جانے سے ڈرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’خلیل الرحمان قمر کا معاملہ سامنے آنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس گینگ نے پہلے بھی تقریباً تین لوگوں کو اسی طرح ہنی ٹریپ میں پھنسا کر نشانہ بنایا ہے جس میں لاہور کے ہی ایک ریستوران کے مالک شامل ہیں جن سے تقریباً 35 لاکھ روپے تاوان وصول کیا گیا۔‘

’ہنی ٹریپ‘

ماتا ہری

جاسوسی کی تاریخ میں شاید اب تک سب سے مشہور ’ہنی ٹریپ‘ جاسوس ماتا ہری کو بتایا جاتا ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد مشہور ہوئی تھیں
خلیل الرحمان قمر کے ساتھ پیش آنے والا ہنی ٹریپ کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں، دُنیا بھر میں اس طرح کے متعدد واقعات پیش آچُکے ہیں جن میں سے چند حالیہ واقعات کا ذکر یہاں کرتے ہیں۔

2023 میں انڈین ریاست مہاراشٹر کے انسداد دہشت گردی سکواڈ (اے ٹی ایس) نے ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (ڈی آر ڈی او) کے ایک سائنسدان کو گرفتار کیا تھا۔

ان پر پاکستان کے لیے مبینہ طور پر جاسوسی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اے ٹی ایس نے کہا تھا کہ ’یہ ’ہنی ٹریپ‘ کا معاملہ ہے اور پردیپ کورولکر نامی ایک سینیئر سائنسدان، جو پونے میں کام کرتے تھے، ایک پاکستانی ایجنٹ سے واٹس ایپ اور ویڈیو کالز کے ذریعے رابطے میں تھے۔‘

جاسوسی کی تاریخ میں شاید اب تک سب سے مشہور ’ہنی ٹریپ‘ جاسوس ماتا ہری کو بتایا جاتا ہے جو پہلی جنگ عظیم کے بعد مشہور ہوئی تھیں۔

ماتا ہری مشہور ناول نگار پاؤلو کوئلو کے ناول ’دی سپائی‘ میں مرکزی کردار ہیں۔ ان کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’جب ماتا ہری پیرس پہنچیں تو ان کے پاس پیسے نہیں تھے لیکن جلد ہی وہ پیرس کے معاشرے کی سب سے زیادہ فیشن ایبل اور پرکشش خواتین میں سے ایک بن گئیں۔ زیادہ تر افسران یا فوجی ان کے ساتھ اپنی دوستی کے قصے سناتے نہیں تھکتے تھے۔‘

اگرچہ تاریخ کے مطابق ماتا ہری پر ’ہنی ٹریپ‘ کے الزامات کبھی بھی پوری طرح سے ثابت نہیں ہوسکے لیکن پھر بھی انھیں فرانسیسی حکومت نے سزا دی کیونکہ یہ معاملہ مبینہ طور پر انتہائی خفیہ دستاویزات کے دشمن تک پہنچنے کا تھا۔

Share.

Leave A Reply