عارفہ نور
حال ہی میں جب یہ خبر سامنے آئی کہ عون علی کھوسہ کو اغوا کرلیا گیا ہے تو فوری طور پر میرے ذہن کے پردے پر ان کا چہرہ نہیں آیا۔ لیکن پھر سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر شیئر کی جانے لگیں جنہیں دیکھ کر مجھے ان کا چہرہ جانا پہچانا لگا۔
میرے موبائل فون کی اسکرین پر ان کی بہت سی ویڈیوز گزر چکی ہیں۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے سماجی مسائل سے متعلق ان کی طنز و مزاح کی ویڈیوز دیکھی ہیں جبکہ وہ ان سے واقفیت بھی نہیں رکھتے تھے۔
,
وہ مزاحیہ ہیں لیکن ہاں وہ سیاسی طور پر متعصب ہیں۔ لیکن ان کا کانٹینٹ غیردلچسپ یا آسانی سے بھولنے والا نہیں۔
حال ہی میں کسی نے ان کے کانٹینٹ کا پی ٹی وی کے معروف پروگرام ففٹی ففٹی سے بھی موازنہ کیا جسے دیکھتے ہوئے ہم بڑے ہوئے۔ لیکن وہ پروگرام بہترین اور مزاحیہ تو تھا ہی لیکن اس کی پروڈکشن ٹیم کو ایک ادارے کی سرپرستی حاصل تھی۔ جب پاکستان میں مختلف ادارے پھل پھول رہے تھے، اس وقت پی ٹی وی بھی ریاست کا ایک اہم ادارہ تھا۔
اس کے برعکس عون علی کھوسہ تنہا کانٹینٹ بناتے ہیں، انہیں کسی کی سرپرستی حاصل نہیں۔ اور شاید یہی بات کہیں کسی کو ناراض کرگئی۔
میں دہائیوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوں لیکن اپنے ٹیلنٹ اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا کا منفرد استعمال کرنے والے لوگ مجھے ہمیشہ حیران کرتے ہیں۔ عون علی کھوسہ ان میں سے ایک ہیں۔
اس کی ایک اور مثال ڈیجیٹل پلیٹ فارم رفتار کی ویڈیو ہے جس میں ایک نوجوان ایک ہزار روپے کو اپنے فون کو چارج کرنے، بائیک میں پیٹرول بھروانے اور دیگر چیزوں پر خرچ کرتا ہے تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اس کا کتنا حصہ حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے۔ دو منٹ کی اس ویڈیو نے بہت سے ایسے سوالات کے جواب دیے اور انہیں واضح کیا جنہیں بہت سے اخبارات اور گھنٹوں کے ٹاک شوز نہ کرسکے۔
اس کے علاوہ ایک اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم دی کرنٹ ہے جس میں سیاستدانوں کے ہلکے پھلکے انٹرویوز آتے ہیں، دو نوجوان خاتون صحافیوں نے شروع کیا۔ اس کے علاوہ پاکستان ایکسپیرئنس کی پوڈکاسٹس بھی قابلِ ذکر ہیں۔ ایک نوجوان شخص جس کا صحافت کی دنیا میں تو کوئی تجربہ نہیں لیکن وہ سیکڑوں بہترین انٹرویوز کرچکے ہیں جو میڈیا سے وابستہ لوگوں کو اپنے پورٹ فولیو میں شامل کرنے پر فخر محسوس ہو۔
نوجوان کانٹینٹ کریئیٹرز کے برعکس، پاکستان کا مین اسٹریم میڈیا بھی تمام نئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز میں شامل ہورہا ہے حالانکہ وہ نیا مواد نہیں بنارہے بلکہ اپنے اسی پرانے طریقوں کے ذریعے صحافت کررہے ہیں۔ وہی پرانی اسٹوریز، موضوعات اور فارمیٹ صرف فرق اتنا ہے کہ اب اس مواد کو پھیلانے کے لیے مختلف پلیٹ فارمز کا استعمال کیا جارہا ہے۔ لیکن اصل تبدیلی ٹیکنالوجی کا ارتقا ہے جس کا نوجوان اور متحرک افراد نیا استعمال کررہے ہیں۔
اس کے لیے ’انٹرنیٹ میں خلل‘ کی اصطلاح استعمال ہوگی۔
یہ صرف ٹیکنالوجی کا کمال نہیں بلکہ انہیں استعمال کرنے والے لوگوں کا بھی ہے اور یہ لوگ عون علی کھوسہ یا پاکستان ایکسپیرئنس کے شہزاد غیاث کی طرح ہیں۔ سیاست میں بھی تبدیلی ثابت شدہ ہے پھر چاہے وہ پاکستان تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم ہو یا بلوچ نوجوانوں کا اپنی آواز اٹھانے کے لیے اس کا استعمال۔ حتیٰ کہ انسانی حقوق کی سرگرمیاں بھی بدل چکی ہیں اور اس کی مثال ایمان مزاری کا ایکس اکاؤنٹ ہے جسے وہ اپنی عدالتی پیشی کے ساتھ ساتھ مسائل اجاگر کرنے کے لیے بھی بروئے کار لاتی ہیں۔
یہ عوامل نئے ہیں اور شاید انہیں تبدیلی بھی کہا جاسکتا ہے اور تبدیلی کبھی بھی ان لوگوں کے لیے آسان نہیں رہی جو اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں۔
پھر اقتدار میں بیٹھے ان لوگوں کا ابتدائی طور پر قدرتی ردعمل اسے روکنے کی کوشش ہے۔ یہ حالیہ گرفتاریوں اور گمشدیوں کی یہ سب سے آسان وضاحت ہے۔ تبدیلی سے خوفزدہ لوگ اور کیا کرسکتے ہیں؟ یہ بالکل یہ پوچھنے کے مترادف ہے کہ پوپ نے گلیلیو کو قید میں کیوں ڈالا حالانکہ وہ تو صرف یہ رائے رکھتا تھا کہ سورج ساکت ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے۔
چونکہ سوشل میڈیا کو تو جیل میں نہیں ڈالا جاسکتا، لہٰذا دوسرا راستہ اس کو دبانا ہے۔ یہ شور مچاتا ہے، بےقابو ہے تو اسے کنٹرول حتیٰ کہ بند کرنا ہوگا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ تبدیلی اتنی بڑی ہے کہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو پریشان تو کررہی ہے لیکن شاید اسے روکنے کے لیے اب بہت دیر ہوچکی ہے۔
ایک انداز میں یہ شمسی توانائی سے متعلق حکومت کے حالیہ ردعمل سے مماثل ہے۔ توانائی کی ادائیگیوں، گردشی قرضوں اور بجلی کی آسمان چھوتی قیمتوں کے ساتھ جدوجہد کرتے حکومت نے شمسی توانائی کی تنصیب کی حوصلہ شکنی کے آپشن پر غور کیا۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے کیونکہ اس جدید دور کے تقاضوں نے اپنا ایک ماحولیاتی نظام بنالیا ہے اور یہ حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کررہے ہیں۔
اسی طرح کا ایک اور حوصلہ شکن عمل فائر وال کی تنصیب ہے جس نے انٹرنیٹ کو سست کردیا ہے اور لوگوں کے لیے ذریعہ معاش سمجھے جانے والے پلیٹ فارمز کو بھی تباہ کردیا ہے۔ ان پلیٹ فارمز کو نوجوان فری لانسرز، مقامی صنعتیں جیسے نوجوان ڈیلیوری رائڈرز استعمال کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خواتین بھی متاثر ہوئی ہیں جو اپنے گھر سے پڑھانے اور دیگر ذرائع معاش کے لیے Skype یا دوسرے پلیٹ فارمز کا استعمال کرتی ہیں۔
یہ پورے ملک کے لیے ایک ایسا دھچکا تھا جس نے حکومت کو اپنے فیصلے کا دفاع کرنے پر مجبور کیا (سب جانتے ہیں کہ یہ کس کے حکم پر ہوا) اور اب وہ وضاحتوں پر وضاحتیں دے رہے ہیں۔ پہلے پہل کو تردید آئی کہ نہیں حکومت نے ایکس پر پابندی نہیں لگائی پھر وزیراطلاعات عطا تارڑ کی جانب سے معروف بیان دیا گیا کہ وہ صرف ایک ہی دیوار سے واقف ہیں اور وہ گریٹ وال آف چائنا ہے جبکہ صوبہ پنجاب میں ان کی ہم منصب عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ’فائبر‘ وال انسٹال کی جارہی ہے۔
,
لیکن جب انٹرنیٹ میں موجود حکومت کے لیے ’خلل یا رکاوٹ‘ اتنی بڑھ گئی تو وہ اسے نظرانداز نہیں کر پائے اور تردید کی جگہ وضاحتوں نے لے لی۔ گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ نے بتایا کہ ویب منیجمنٹ سسٹم (جسے کچھ میڈیا آؤٹ لیٹس نے انٹرنیٹ کی رفتار کم ہونے کی وجہ قرار دیا) کو اپ گریڈ کیا گیا ہے اور اتوار کو انہوں نے پریس کانفرنس کرکے سست انٹرنیٹ پر وی پی این کو موردِالزام ٹھہرایا جبکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ لوگ آخر وی پی این استعمال ہی کیوں کررہے ہیں۔
بڑی فرموں سے لے کر ڈیلیوری رائڈرز جیسے عام لوگ جو اپنا گھر چلانے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کماتے ہیں، کیا یہ مبہم بیانات اس پوری صنعت کے نقصانات کا ازالہ کرسکتے ہیں؟ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو جلد از جلد فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ تنقید برداشت کرتے ہیں یا معیشت کو یونہی تباہ ہونے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ انہیں ان مسائل کے حل تلاش کرنا ہوں گے۔
تاہم اگر درست فیصلہ کر بھی لیا جائے تب بھی عون علی کھوسہ چنانچہ اپنے گھر واپس آچکے ہیں، ان جیسے کانٹینٹ کریئیٹرز سے نمٹنے کا حکومت کا واحد راستہ گمشدگیاں، گرفتاریاں اور دھمکیاں ہوں گی۔ اس کے باوجود بھی تبدیلی یا انٹرنیٹ پر آواز اٹھانے کے جدید طریقوں کو روکا نہیں جاسکتا۔ یہ نوجوان کہیں نہیں جائیں گے کیونکہ یہ پاکستان کا آج اور کل ہیں۔