فائزہ جہان
جدید دنیا میں ممالک مختلف ذرائع کی وجہ سے ایک دوسرے سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں۔ چاہے کوئی خبر ہو یا وائرل بیماری، پلک جھپکتے ہی ایک براعظم سے دوسرے میں پھیل جاتی ہے۔ کووڈ 19 کے بعد ابھی ہم سکون کا سانس ہی لے رہے تھے کہ ایک اور وائرس خاموشی سے ہماری سرحدوں میں داخل ہوچکا ہے اور اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا ہے۔
ایم پاکس جس کے بارے میں خیال کیا جارہا تھا کہ وہ افریقہ کے چند ممالک کے دور افتادہ علاقوں تک محدود ہے، اب پاکستان میں بھی پہنچ چکا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ باہم جڑی ہوئی اس دنیا میں کوئی مقام بھی خطرے سے خالی نہیں۔
خیبرپختونخوا میں ایم پاکس کے دو کیسز نے ظاہر کیا کہ یہ وائرس ہماری دہلیز تک آچکا ہے۔ ایک ایسا ملک جو پہلے ہی متعدد صحت عامہ کے مسائل سے دوچار ہے وہاں ایم پاکس کی آمد نے تشویش کی طویل فہرست میں مزید خدشات کا اضافہ کیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے ایم پاکس کو پبلک ہیلتھ ایمرجنسی آف انٹرنیشنل کنسرن (پی ایچ ای آئی سی) قرار دیا۔ صحت عامہ کے ایک اور مسئلے کے علاوہ ایم پاکس پورے پاکستان بالخصوص بچوں کے لیے نیا بحران پیدا کرسکتا ہے۔
یہ وائرس جو جانوروں میں پایا جاتا ہے اور متاثرہ شخص سے قریبی تعلق کی وجہ سے پھیلتا ہے، اپنی جغرافیائی حدود کو توڑتا ہوا براعظم افریقہ میں بڑے پیمانے میں پھیلنے کے بعد اب یورپ، شمالی امریکا اور دیگر براعظم میں پہنچ چکا ہے۔
اس کے پھیلاؤ کی اہم وجہ اس وائرس کی نئی (زیادہ مہلک) قسم ’کلیڈ 1 اے‘ ہے جو پہلی بار کانگو میں 2023ء میں سامنے آئی۔ اس نئی قسم نے 500 سے زائد افراد کی جانیں لیں جن میں سے زیادہ تر بچے تھے۔ مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے وائرس کو تیزی سے ارتقا پاتے دیکھا۔ جیسے جیسے یہ وائرس آسانی سے ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہورہا ہے، اس نے نوجوانوں کو متاثر کیا ہے جبکہ یہ متاثرہ علاقوں میں گھرانوں کو اپنی زد میں لے رہا ہے۔
پاکستان بھی اب حقیقت کا حصہ بن چکا ہے۔ افریقہ میں پایا جانے والا یہ وائرس آخر پاکستان تک کیسے پہنچا؟ اور اس وائرس کی موجودگی ہمارے بچوں کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟ ایسا ملک جہاں صحت کے مسائل عام ہیں، وہاں اس نئے وائرس سے ہمارے بچوں کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کی 20 کروڑ سے زائد کی آبادی میں 45 فیصد بچے ہیں۔ بالغ افراد کی طرح بچوں کا مدافعتی نظام بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کو وائرس سے لڑنے میں زیادہ مشکلات پیش آتی ہیں اور انہیں زیادہ شدید علامات اور پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں۔
بچوں میں ظاہر ہونے والی ایم پاکس کی علامات جیسے بخار، خراش، سوزش اور کمزوری کو تو بچوں میں پائی جانے والی دیگر بیماریوں جیسے چکن پاکس یا خسرہ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ اس وجہ سے درست تشخیص اور علاج میں تاخیر ہوسکتی ہے۔ اس کے مہلک نتائج سامنے آسکتے ہیں اور مبینہ طور پر وائرس پھیل سکتا ہے۔ اسی طرح چکن پاکس جوکہ عام ہے اور اس سے تشبیہ کی بنیاد پر ایم پاکس کے پھیلاؤ کے حوالے سے غیرضروری خوف بھی پیدا ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب بچوں میں غذائیت کی کمی ایک اور خطرہ ہے۔ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک بچہ کسی قسم کی غذائیت کی کمی کا شکار ہوتا ہے۔ ایسے بچوں میں ایم پاکس وائرس کی وجہ سے پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں جن میں ثانوی بیکٹیریل انفیکشن جیسے سیپسس، جلد کے بیکٹیریل انفیکشن اور سانس کے مسائل بشمول نمونیا شامل ہیں۔
صحت عامہ کا ناقص نظام اور انفیکشن والی موجودہ بیماریوں کے بوجھ کی وجہ سے ہمارے بچوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔ ہم پہلے ہی پولیو سے لڑ رہے ہیں جو دوبارہ سر اٹھا رہا ہے جبکہ ہم کورونا کے بعد سے پولیو ویکسینیشن میں کمی کو اب تک پورا نہیں کرپائے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ایم پاکس کے کیسز کا سامنے آنا تباہی کا پیش خیمہ ہے۔
ایسا وائرس جو متاثرہ شخص کے قریب رہنے سے پھیلتا ہے، ایسے ماحول میں پروان چڑھتا ہے جہاں طبی سہولیات تک رسائی محدود ہوتی ہے۔ ایسے مقامات پر ممکن ہے کہ ایم پاکس سے متاثرہ بچوں کو اس وقت تک ڈاکٹر کو نہ دکھایا جائے کہ جب تک معاملہ سنگینی نہ اختیار کرلے جبکہ ایسا کرنے سے مزید انفیکشنز اور پیچیدگیوں کے خطرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
بچے عموماً اسکولز، ڈے کیئر سینٹرز اور گھروں میں دیگر بچوں کے قریب زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ ان کی یہ قربت وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہے اور یہ اس حد تک پھیل سکتا ہے کہ اس پر قابو پانا مشکل ہوسکتا ہے۔
ایم پاکس وائرس کی نئی قسم بچوں کے لیے مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ کانگو میں تقریباً 70 فیصد متاثرین، بچے ہیں اور بالغ افراد کے مقابلے میں بچوں کو وائرس سے ہلاکت کا خطرہ 4 گنا زیادہ ہے۔
یہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر مطمئن ہونے کا وقت نہیں۔ پاکستان میں ایم پاکس کی آمد تمام پالیسی سازوں، صحت کی سہولیات فراہم کرنے والوں ذمہ داروں اور شہریوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں نگرانی کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ شبہ، تشخیص اور علاج کا عمل تیز ہوسکے۔ جلد تشخیص بالخصوص پسماندہ آبادی میں ایم پاکس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔
ہمیں ایک منظم عوامی مہم کی ضرورت ہے تاکہ انفیکشن کی علامات اور بیماری کے حوالے سے طبی علاج کی اہمیت اجاگر کی جاسکے۔ جیسے ہم نے کورونا کے وقت کیا تھا، اس میں بھی ہمیں لوگوں کو شعور دینا ہوگا کہ ایم پاکس کی ابتدائی علامات کیا ہیں۔
اگرچہ اس بیماری کا کوئی فوری علاج دستیاب نہیں تو اس صورت میں ضروری ہے کہ مرض کی فوری تشخیص ہو، اسے سہولیات فراہم کی جائیں، نگہداشت، متاثرہ شخص کو قرنطینہ کیا جائے ساتھ ہی یہ بھی معلوم کیا جائے کہ متاثرہ شخص کس کس سے رابطے میں آیا ہے تاکہ اس کی مدد سے بیماری کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔ جبکہ اس حوالے سے خصوصی طور پر بچوں پر مرکوز حکمت عملی کی تشکیل بھی وقت کی ضرورت ہے۔
دوسری اور تیسری جنریشن کی نئی ویکسین کو اس معاملے میں ترجیح دینی چاہیے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اگرچہ پاکستان نے چیچک (جو 1980ء میں ختم ہوچکی) کی خاتمہ مہم میں جس ویکسین کا استعمال کیا تھا اب بھی پاکستان میں اس پرانی ویکسین کی سپلائی جاری ہے۔
ایم پاکس کے سلسلے میں اس بار وہ ویکسین کو بروئے کار نہ لایا جائے کیونکہ یہ موجودہ حفاظتی معیارات پر پورا نہیں اترتی۔ نئی ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور بین الاقوامی اور مقامی شراکت داروں کے ذریعے ہمیں بچوں تک اس ویکسین کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے حکمت عملی بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
بچوں کی صحت کے ادارے جیسے اقوامِ متحدہ کے یونیسیف، پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن اور بچوں کی صحت کی وکالت کرنے والے تعلیمی اداروں کو، عوام اور طبی کارکنان کو آگاہی اور مناسب تربیت دینے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
اس صورت حال کا ایک مثبت پہلو بھی ہے۔ ایم پاکس کو 2022ء یعنی حال ہی میں عالمی ایمرجنسی قرار دیا گیا تھا تو یہ قوی امکان ہے کہ یہ مزید نہیں پھیلے گا۔ پاکستان میں ایم پاکس ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے جس کی بنا پر صحت عامہ کا شعبہ چوکس ہوسکتا ہے جبکہ عالمی تعاون میں بھی تیزی آسکتی ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس سے نمٹنے کے لیے کیا فیصلے لیتے ہیں۔
لکھاری آغا خان یونیورسٹی میں شعبہِ پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کی چیئرپرسن ہیں۔