صائمہ اقبال
کل تک بولی وڈ میں ری میک کا زور تھا اور اب ایک نئی ترکیب ’ری ریلیز‘ کا چرچا ہے۔
ری ریلیز سے مراد ماضی کی سپر ہٹ اور آئیکونک فلموں کو دوبارہ بڑے پردے پر پیش کرنا ہے۔ گو ماہ ستمبر میں یہ ٹرینڈ عروج پر آنے کو ہے مگر پرانی فلموں کی ریلیز کا یہ سلسلہ گزشتہ چند ماہ سے جاری ہے اور یہ تجربہ کافی حد تک کامیاب قرار پایا ہے۔
یہ جائزہ لینے سے قبل کہ اس ٹرینڈ کا سبب کیا ہے اور اس نے کیوں کر کامیابی حاصل کی، ہمیں اس بات پر نظر ڈالنا ہوگی کہ اب تک کون کون سی فلمیں ری ریلیز ہوچکی ہیں۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران ری ریلیز ہونے والی فلموں میں رنبیر کپور اور امتیاز علی کی ’راک اسٹار‘، انوراگ کیشپ کی ماسٹر پیس ’گینگز آف واسع پور‘، مادھون کا میوزیکل ڈراما ’رہنا ہے تیرے دل میں‘ اور زویا اختر کی معنویت کی حامل ’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘ جیسی فلمیں شامل ہیں۔
گزشتہ چند ماہ میں ری ریلیز کی جانے والی ماضی کی معروف فلمیں
ماہ ستمبر میں یہ سلسلہ مزید زور پکڑے گا جب ہم پاک-بھارت تناظر میں بننے والی یش چوپڑا کی شاہ کار فلم ’ویر زارا‘ کو بڑے پردے پر دوبارہ دیکھیں گے۔ اسی طرح سبھاش گھئی کی ہدایت کاری میں بننے والی ’پردیس‘ اور ’تال‘، سورج برجاتیا کی ’میں نے پیار کیا‘ اور ’ہم آپ کے ہیں کون‘ جیسی یادگار فلمیں دوبارہ بڑے پردے پر دکھائی جائیں گی۔
سنیما مالکان کے مطابق ابتدا میں یہ فلمیں محدود پیمانے پر ریلیز کی جائیں گی لیکن اگر ناظرین کی جانب سے اچھا ردعمل ملا تو عین امکان ہے کہ شوز بڑھا دیے جائیں۔ ری ریلیز کے اس سلسلے میں ہم انیل کپور کی ’تیزاب‘ اور امیتابھ بچن کی ’شعلے‘ جیسی فلموں کو بھی بڑے پردے پر دیکھ سکتے ہیں۔
کیا یہ ٹرینڈ سودمند ہے؟
اگر تجزیہ کیا جائے تو ری ریلیز کا یہ ٹرینڈ کئی معنوں میں مفید ہے۔
اس وقت بھارت میں تھیٹرز ریکارڈ تعداد میں موجود ہیں۔ یعنی فلموں کو ریلیز کے موقع پر جو آڈینس آج میسر ہے وہ پہلے میسر نہیں تھی۔ تعداد کے ساتھ ساتھ فلم بینوں کی قوت خرید میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ البتہ ان کا مزاج بدل گیا ہے۔ بڑے کینوس کی فلمیں دیکھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ ساتھ ہی او ٹی ٹی کی آمد ہوچکی ہے جس کا اثر ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔
ایسے میں ماضی کی بلاک بسٹر فلموں کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسرز ری ریلیز کے اس ٹرینڈ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اس میں ناظرین کا بھی نفع ہے۔ ریلیز ہونے والی ان فلموں کے ٹکٹوں کی قیمت نسبتاً کم اور حصول آسان ہوتا ہے۔ پھر یہ انہیں ماضی کے کلچر، ٹرینڈز اور ناسٹلجیا سے متعارف کروا کر یکسر نئے ذائقے سے آشنا کرتی ہیں۔
یہاں یہ نکتہ پیش نظر رہے کہ آج سنیما گھروں کا رخ کرنے والے فلم بینوں کی اکثریت نوجوان نسل پر مشتمل ہے جن میں سے اکثر نے ’شعلے‘ یا ’ہم آپ کے ہیں کون‘ جیسی فلمیں نہیں دیکھی ہوں گی۔ یہ ان کے لیے سنہری موقع ہے۔
آئندہ آنے والے ماہ میں ایسی مزید فلمیں ری ریلیز کی جائیں گی
ساتھ ہی یہ سبھاش گھئی اور سورج برجاتیا جیسے ہدایت کاروں کے لیے بھی ایک امکان ہے، جو ماضی میں تو بولی وڈ میں مرکزی حیثیت کے حامل تھے مگر اب ان کی جگہ نئے ہدایت کاروں نے لے لی ہے اور ان کا نام ناظرین کے ذہنوں سے محو ہوگیا ہے۔
یہ ٹرینڈ کیوں شروع ہوا؟
اس سلسلے میں تجزیہ کار مختلف آرا رکھتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ اس کا سبب بولی وڈ کی حالیہ فلموں کی ناکامی ہے مگر یاد رہے کہ یہ ٹرینڈ فقط بولی وڈ تک محدود نہیں۔ ساؤتھ بھارت میں بھی کئی بلاک بسٹر فلموں کو دوبارہ ریلیز کرنے کا رواج ہے۔ ہم نے تھلاپتی وجے سے پون کلیان تک کی فلموں کو دوبارہ ریلیز ہوتے ہوئے دیکھا۔ ’انڈین 2‘ کی ریلیز سے قبل اس کے پہلے پارٹ کو محدود پیمانے پر ریلیز کرنا معمول کا واقعہ تھا تاکہ ناظرین میں جڑت کا احساس اجاگر کیا جاسکے۔
الغرض یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ٹرینڈ نیا نہیں لیکن یہ اب خبروں کی زینت بن رہا ہے۔ اسی وجہ سے یہ سوال اٹھا کہ کیا اس کا سبب بولی وڈ فلمز کی ناکامی ہے؟ جواب ہے نہیں۔
یقینی طور پر کورونا وبا کے بعد بولی وڈ کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن 2023ء کے آغاز میں ’پٹھان‘ کی ریکارڈ کامیابی کے بعد ’غدر‘، ’اینیمل‘ اور ’جوان‘ جیسی فلموں کے ذریعے بولی وڈ نے کھڑکی توڑ بزنس کیا اور اپنی ناکامیوں کے داغوں کو دھو دیا۔ اس وقت ’استری ٹو‘ سنیما گھروں پر راج کر رہی ہے جو ممکنہ طور پر ’جوان‘ کا ریکارڈ توڑ دے گی۔ ایسے میں یہ تصور کہ بولی وڈ ناکامیوں کا شکار ہے، درست نہیں۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ برس میں ریلیز ہونے والی بیشتر فلموں بالخصوص فیملی ڈراما اور رومانی فلموں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ اکشے کمار اور اجے دیوگن جیسے بڑے ستاروں کی فلمیں بھی 40 کروڑ تک پہنچے پہنچتے ہانپ گئیں اور بدترین ناکامی کے ساتھ اپنے پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئیں۔
بولی وڈ کی بڑے ستاروں کی فلموں کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا
ایسے میں جب ہزاروں سنیما گھر موجود ہیں فقط چند ہی فلمیں بزنس کر رہی ہیں۔ اکثر تو چند ہی شوز کے بعد اتار دی جاتی ہیں۔ اس صورت حال میں سنیما مالکان اور ڈسٹری بیوٹرز کے لیے ماضی کی یادگار فلمیں ایک اچھا اپشن ہیں جن کے حصول میں انہیں زیادہ سرمایہ کاری نہیں کرنا پڑتی۔ ری ریلیز کے موقع پر یہ فلم ماضی کی شہرت، مثبت ریویوز اور اسٹار پاور کے دم پر فوری توجہ حاصل کر لیتی ہیں۔ یعنی اگر اکشے کمار اور اجے دیوگن کی تازہ فلمیں نہیں چل رہی تو آپ ساتھ والے سنیما گھر میں شاہ رخ یا سلمان خان کی کوئی یادگار فلم دیکھ سکتے ہیں۔
بولی وڈ خانز کا جادو
سال 1994ء میں ریلیز ہونے والی سلمان خان کی فلم ’ہم آپ کے ہیں کون؟‘ کو بھارت کی تاریخ کی کامیاب ترین فلم ٹھہرایا جاتا ہے۔ اگلے ہی برس شاہ رخ خان کی ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ ریلیز ہوئی جس نے انہیں اسٹار سے سپر اسٹار بنا دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں فلمیں ایک طویل عرصے سے بھارتی ٹی وی چینلز پر نشر کی جارہی ہیں۔ ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ تو اپنی ریلیز کے بعد سے اگلے 27 سال تک ممبئی کے مراٹھا مندر میں دکھائی جاتی رہی لیکن اس کے باوجود خانز کا سحر اب بھی قائم ہے اور ان کی ری ریلیز والی فلمیں ناظرین کو متوجہ کرنے کی پوری قوت رکھتی ہیں۔
بولی وڈ پر خانز کا سحر اب بھی برقرار ہے
ممکن ہے کہ مستقبل میں عامر خان کی کسی بڑی فلم کی ری ریلیز کا ڈول ڈالا جائے۔ یاد رہے کہ بالی وڈ میں خانز اب بھی سب سے زیادہ بکنے والا نام ہیں۔
ری ریلیز اور پاکستانی انڈسٹری
یہ سوال اہم ہے کہ کیا پاکستانی انڈسٹری بولی وڈ میں شروع ہونے والے اس ٹرینڈ سے فائدہ اٹھا سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے ہاں۔ پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بقا سنیما انڈسٹری کی ترقی سے وابستہ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سنیما گھروں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ ایک بڑی فلم کم از کم 500 اسکرینز کا مطالبہ کرتی ہے لیکن پاکستان میں اتنے سنیما گھر موجود نہیں۔
پاکستان میں سنیما گھروں کی بقا درحقیقت بھارتی فلموں کی نمائش سے وابستہ ہے۔ جب بھارتی فلموں پر پابندی عائد ہوئی تو اس خلا کو پُر کرنے کے لیے ہولی وڈ کے ساتھ ساتھ ترک اور کورین فلمیں دکھانے کا سلسلہ شروع کیا گیا مگر یہ فلمیں ناظرین کی توجہ حاصل نہیں کر سکیں جس کے نتیجے میں سنیما گھروں کو مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
پاکستان بھی پرانی بھارتی فلمیں دوبارہ سنیما میں لگا کر اس ٹرینڈ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے
ایسی صورت حال میں جب بھارتی فلموں پر پابندی ہے، ہمارے پاس یہ ممکنہ حل موجود ہے کہ ان فلموں کو دوبارہ ریلیز کیا جائے جو ماضی میں پاکستانی سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جا چکی ہیں۔ یعنی وہ بھارتی فلمز جن کی ریلیز کے حقوق موجود ہیں اور جن سے کوئی تنازع بھی نہیں جڑا ہوا۔ ایسی فلموں کو دوبارہ پیش کیا جانا، سنیما گھروں کے لیے راحت کا امکان ضرور پیدا کرسکتا ہے۔
حرف آخر
بھارت بالخصوص بولی وڈ میں شروع ہونے والا ری ریلیز کا رجحان بہ ظاہر مثبت دکھائی دیتا ہے کہ یہ ماضی کے باصلاحیت ہدایت کاروں اور اداکاروں کے کام کو نوجوان ناظرین کے سامنے پیش کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ نہ صرف پرانی فلموں میں نئی روح پھونک رہا ہے بلکہ سنیما مالکان کے لیے اضافی آمدنی کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔ تاہم اگر اس رجحان کی بنیاد حالیہ فلموں کی مسلسل ناکامیوں پر رکھی گئی ہے تو یہ تشویش ناک ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ’باہوبلی‘ اور ’کے جی ایف‘ جیسی کامیاب فلموں نے ہندی ناظرین پر گہرے اثرات مرتب کیے تھے اور اپنے لیے ایک نئی مارکیٹ دریافت کر لی۔ پربھاس کی حالیہ فلم ’کالکی‘ کی کامیابی اور الو ارجن کی ’پشپا ٹو‘ کی ہائپ بھی ان ہی اثرات کا نتیجہ ہے۔ الغرض ہندی ناظرین کا مزاج بدل گیا ہے۔
بھارتی فلم بینوں کا مزاج بدل گیا ہے
گو ’پٹھان‘، ’غدر‘، ’اینیمل‘، ’جوان‘، اور ’استری ٹو‘ جیسی بڑی فلمیں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی ہیں، مگر رومانی اور ڈراما فلموں کی ناکامی اور چھوٹی فلموں کی براہ راست او ٹی ٹی پر ریلیز کی وجہ سے سنیما مالکان میں تشویش موجود ہے (پاکستانی سنیما مالکان کو بھی یہی دقت درپیش ہے)۔
اس تناظر میں ری ریلیز کا رجحان ایک وقتی حل تو ہو سکتا ہے لیکن یہ فلم انڈسٹری کے لیے مستقل کامیابی کا ضامن نہیں۔ اس لیے بولی وڈ کو مسلسل نئے اور معیاری مواد پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ناظرین کی دلچسپی اور انڈسٹری کی بقا کو یقینی بنایا جا سکے۔