سنیچر کے روز بلوچستان اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ بارش کے دوران آسمانی بجلی گرنے کے غیرمعمولی واقعات میں کم از کم 22 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے پنجاب کے ترجمان مظہر حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ پنجاب اور میں 17 افراد آسمانی بجلی کی زد میں آ کر جان کی بازی ہار گئے جبکہ پانچ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں سب سے زیادہ ہلاکتیں صوبہ پنجاب کے شہر ضلع رحیم یار خان میں ہوئیں جہاں تقریباً آدھے گھنٹے کی بارش کے دوران 50 سے 70 کلومیٹر کے علاقے میں آسمانی بجلی گرنے کے چھ مختلف واقعات میں آٹھ لوگوں کی جان چلی گئی۔
دوسری جانب بلوچستان میں بھی دو روز کے دوران آسمانی بجلی گرنے سے کم از کم پانچ لوگ ہلاک ہو گئے۔
یاد رہے محکمہ موسمیات نے مغربی سسٹم کے زیر اثر 12 سے لے کر 15 اپریل تک بارشوں کی پیش گوئی کر رکھی ہے۔
پی ڈی ایم اے پنجاب نے طوفان سے متعلق جاری الرٹ میں خبردار کیا ہے کہ آسمانی بجلی طوفان سے 10 میل دور تک گر سکتی ہے۔
ملک کے مختلف حصوں میں بارشوں سے ندی نالوں میں طغیانی اورپہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کے باعث کئی رابطہ سڑکوں پر ٹریفک بھی معطل رہی۔
آسمانی بجلی سے بچوں کی موت پر علاقے میں کہرام
حالیہ بارشوں میں چترال سے پشاورجانے والی روڈ مختلف مقامات پر ندی نالوں میں طغیانی کی وجہ سے ٹریفک کے لیے بند کی گئی
پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور ریسکیو حکام نے صوبہ پنجاب میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اب تک 17 افراد کی موت کی تصدیق کی ہے۔
مقامی صحافی غلام حسن مہر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ رحیم یار خان میں آسمانی بجلی گرنے کا پہلا واقعہ صبح تقریباً سات بجے نواحی علاقے رکن پور کے گاؤں بستی بہلواڑ میں پیش آیا جہاں دو بچوں پر آسمانی بجلی گرنے سے چھ سالہ جہانزیب اور آٹھ سالہ فیصل ہلاک ہو گئے۔
ان بچوں کے قریبی رشتہ دار اللہ نواز نے بی بی سی کو بتایا کہ دونوں بچے بارش کے دوران قریبی بستی سے واپس گھر آ رہے تھے اس دوران ایک زور دار دھماکے کی آواز سُنائی دی اور آسمانی بجلی کے گرنے سے دونوں بچے موقع پر ہی دم توڑ گئے۔
بجلی گرنے کا دوسرا واقعہ بستی کھوکھراں میں پیش آیا جہاں گندم کی کٹائی کرنے والے محنت کش 45 سالہ حفیظ اور ان کی 40 سالہ اہلیہ کلثوم پر آسمانی بجلی گری۔ اسی طرح کھیتوں پر آسمانی بجلی گرنے سے گندم کی کٹائی کرنے والے 14 سالہ رفیق، 12 سالہ شاہد کی موت ہو گئی۔ حسن موہانہ نامی کسان کو آسمانی بجلی گرنے سے حالت غیر ہونے پر فوری طور پر تحصیل ہسپتال لیاقت پور منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔
بستی ماڑی اللّٰہ بچایا میں درخت پر آسمانی بجلی گرنے سے 20 سالہ چرواہا سردار بلوچ ہلاک جبکہ ان کا ساتھی کریم بلوچ زخمی ہو گئے۔
بجلی گرنے کے واقعات میں لیاقت پور چنی گوٹھ اور چک 13 میں گندم اور کجھور کے درخت پر آسمانی بجلی گرنے سے آگ لگ گئی جس پر ریسکیو آپریشن کے بعد قابو پا لیا گیا۔ اسی دوران کئی مویشی بھی ہلاک اور زخمی بھی ہوئے۔
پنجاب کے شہر بہاولپور اور لودھراں میں آسمانی بجلی گرنے سے تین سالہ بچے سمیت سات افراد کی موت واقع ہو گئی۔
صحافی غلام حسن مہر کے مطابق بہاولنگر میں موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے باپ اور دو بیٹوں پر آسمانی بجلی گرنے کے باعث ایک ہی خاندان کے تین افراد موقع پر ہلاک ہو گئے جبکہ مظفرگڑھ میں بھی کھیتوں پر آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں دو کسانوں سمیت ایک بچے کی موت ہو گئی۔
دوسری جانب بلوچستان میں دوروز سے جاری بارشوں کے باعث کوئٹہ شہر میں نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔
مستونگ اور بعض دیگر علاقوں میں ژالہ باری اور طوفانی بارشوں کے باعث جہاں کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچا وہیں دو روز کے دوران آسمانی بجلی گرنے سے ہلاکتوں کی تعداد پانچ ہوگئی۔
بلوچستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے انچارج ایمرجنسی آپریشن سینٹر یونیس عزیز مینگل نے بی بی سی کو بتایا یہ افراد تین مختلف علاقوں میں آسمانی بجلی گرنے کے باعث ہلاک ہوئے ۔
انھوں نے بتایا ان میں سے دو کا تعلق ڈیرہ بگٹی، دو کا سوراب جبکہ ایک شخص پشین کا رہائشی تھا۔
’فضا اور زمین کے درمیان پیدا ہونے والی ایک بڑی چنگاری‘
ڈائریکٹرمحکمہ موسمیات ظہیراحمد بابرسے جب ہم نے آسمانی بجلی کی سائنس کو سمجھنے سے متعلق سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ آسمانی بجلی دراصل فضا میں یا فضا اور زمین کے درمیان پیدا ہونے والی ایک بڑی چنگاری ہے۔
ڈائریکٹر پی ایم ڈی ظہیر بابر نے بی بی سی کی نامہ نگار آسیہ انصر کو بتایا کہ ’آسمانی بجلی کے ابتدائی مرحلے میں ہوا بادلوں کے اور پھر بادل اور زمین کے بیچ مثبت اور منفی چارجز کے درمیان ایک انسولیٹر ( چارج کو روکنے ) کا کام کرتی ہے۔‘
’تاہم جب چارجز میں فرق بہت زیادہ ہو جاتا ہے، تو ان کے درمیان سے کرنٹ کا تیزی سے اخراج ہوتا ہے جسے ہم آسمانی بجلی کے نام سے جانتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں بادلوں کے اندر پیدا ہونے والا چارج (الیکٹرک کرنٹ) جب ڈسچارج ہو تو اس عمل کو آسمانی بجلی چمکنا کہا جاتا ہے۔‘
ظہیر بابر کے مطابق ’آسمان کی اس بجلی میں 300 ملین واٹ تک کرنٹ موجود ہو سکتا ہے۔‘
واضح رہے کہ عام طور پر گھروں میں سپلائی ہونے والی بجلی میں 220 واٹ کرنٹ ہوتا ہے۔
ڈائریکٹر محکمہ موسمیات کے مطابق آسمانی بجلی کہلائے جانے والے اس ڈسچارج کی تین اقسام ہیں جن میں پہلی قسم بادلوں سے بادلوں کے درمیان، دوسری بادلوں سے ہوا کے درمیان جبکہ ڈسچارج کی تیسری قسم آسمان سے زمین کے اندر اس کرنٹ کا منتقل ہونا ہے۔
’آسمان سے الیکٹرک کرنٹ کا ڈسچارج جب زمین پر گرتا ہے تو اس کی زد میں آنے والی ہر شے بشمول انسان پر اس کا براہ راست اثر ہوتا ہے اور اس میں سے لاکھوں واٹ کرنٹ گزرتا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر یہ بجلی کسی درخت پر گرے تو شارٹ سرکٹ ہو کر انسان میں منتقل ہو سکتی ہے۔‘
آسمانی بجلی طوفان سے 10 میل دور تک گر سکتی ہے: پی ڈی ایم اے
یاد رہے کہ محکمہ موسمیات نے بارش کے حالیہ سسٹم سے متعلق آٹھ اپریل کو اعلامیہ جاری کر دیا تھا جس کے مطابق 10 سے 15 اپریل کے دوران کشمیر، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے مختلف حصوں میں آندھی، تیز ہواؤں کے جھکڑ چلنے، گرج چمک کے ساتھ بارش اور بعض مقامات پر تیز موسلادھار بارش اور ژالہ باری ہو سکتی ہے۔
بارش کے سسٹم کے دوران مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا اور موسمی صورت حال کے تناظر میں متنبہ کیا گیا کہ موسمی حالت کے پیش نظرعوام غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں۔ محکمہ موسمیات نے تمام متعلقہ اداروں کو اس دوران الرٹ رہنے کی ہدایت بھی کی ہے۔
آفات سے نمٹنے والے ادارے پی ڈی ایم اے نے اپنے الرٹ میں آسمانی بجلی سے محفوظ رکھنے کے لیے احتیاطی تدابیر سے متعلق الرٹ بھی جاری کیا ہے جس کے مطابق آسمانی بجلی طوفان سے 10 میل دور تک گر سکتی ہے لہذا
بارش کے دوران کھلے آسمان کے نیچے جانے سے گریز کیا جائے
طوفان کی صورت میں قریبی عمارت میں جانے یا بیٹھنے کو ترجیح دی جائے
طوفان کے دوران چھتری یا موبائل فون استعمال نہ کریں
درخت، باڑ، کھمبوں، سے دور ایسی جگہ تلاش کی جائے جو تھوڑی نچلی ہو
طوفان کے کم از کم 30 منٹ تک باہر نکلنے سے گریز کیا جائِے
آسمانی بجلی سے کیسے محفوظ رہیں
چمرکھن نالے میں طغیانی آنے سے سیاحوں کی گاڑی کو نقصان پہنچا
بی بی سی کے موسمی سینٹر نے احتیاطی تدابیر کے ساتھ کچھ ایسی باتوں سے بھی خبردار کیا ہے جن سے طوفان اور گرج چمک کے دوران گریز کرنا ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق کیونکہ پانی کے ذریعے بجلی گزر سکتی ہے اس لیے کشتی میں سوار افراد اور تیراک فوری طور پر کنارے پر پہنچیں۔ اسی طرح لوہے کی پائپوں اور فون لائنوں کے ذریعے بھی بجلی گزر سکتی ہے۔ اس لیے صرف ایمرجنسی کالز کے لیے فون استعمال کریں۔
نہانے اور برتن دھونے سے پرہیز کریں کیونکہ اگر مکان پر آسمانی بجلی گرتی ہے تو بجلی کا جھٹکے سے لوہے کی پائپوں کے ذریعے بجلی گزر سکتی ہے۔
طوفان کے دوران اگر آپ مکان سے باہر ہیں تو درخت، باڑ اور کھمبوں سے دور ایسی جگہ ڈھونڈیں جو تھوڑی نچلی ہو۔
اگر طوفان کی پیشین گوئی کی گئی ہے تو کھلے آسمان تلے جانے سے گریز کریں اور خاص طور پر گولف یا مچھلی کے شکار کے لیے نہ جائیں۔ اگر طوفان آ رہا ہے تو کسی عمارت میں چلے جائیں یا گاڑی میں بیٹھ جائیں اور شیشے چڑھا لیں۔
طوفان کی صورت میں لکڑی کے بنے کمرے، اکیلا کھڑا درخت اور بغیر چھت کی گاڑیاں آپ کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔
اگر بجلی کی چمک دیکھنے اور بادلوں کی گرج کی آواز میں 30 سیکنڈ سے کم کا وقفہ ہے تو یہ خطرے کی علامت ہے۔
اگر آپ کو جھنجھناہٹ محسوس ہو اور آپ کے بال کھڑے ہو جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ آسمانی بجلی گرنے لگی ہے۔ ایسی صورت میں اپنا سر گھٹنوں کے درمیان رکھیں۔
طوفان کے دوران چھتری اور موبائل فون استعمال نہ کریں۔
اگر کسی پر آسمانی بجلی گرے تو فوری طور ایمبولینس کو فون کریں کیونکہ اس شخص کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہو گی۔ اس شخص کو آپ ہاتھ لگا سکتے ہیں۔
متاثرہ شخص کی نبض چیک کریں اور دیکھیں کہ سانس آ رہا ہے کہ نہیں۔ اگر سانس آ رہا ہے تو دیکھیں کہ وہ زخمی تو نہیں۔ جس شخص پر آسمانی بجلی گری ہو اس کے جسم پر دو جگہ جلنے کے نشان ہوں گے۔ ایک وہاں جہاں بجلی گری اور دوسرے وہاں جہاں سے بجلی جسم سے باہر نکلی ہو۔
بی بی سی موسمی سینٹر کا کہنا ہے کہ طوفان کے کم از کم 30 منٹ تک باہر نکلنے سے گریز کریں۔
اور ہاں یہ بات درست نہیں ہے کہ آسمانی بجلی ایک جگہ دو بار نہیں گرتی۔