پاکستان میں سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے والے سولر سسٹمز کی طلب میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ایک سال میں مکانات کی چھتوں پر سولر پینلز کی تنصیب میں اتنا اضافہ ہوا ہے جتنے اس سے پہلے دس برس میں نہیں ہوا تھا۔
گذشہ برس مارچ تک پاکستان میں شمسی توانائی سے کل پیداوار ایک ہزار میگا واٹ تھی اور رواں برس مارچ تک یہ 1800 میگا واٹ سے زیادہ ہو چکی ہے۔
لاہور کی بات کریں تو ہال روڈ کے پہلو میں بنے بازار میں جہاں دو سال قبل تک سولر پینلز کی چند ہی دکانیں تھیں۔ مگر اب یہاں آپ کو لگے گا کہ شہر میں لوگ صرف سولر پینلز اور اس کا متعلقہ سامان ہی خرید رہے ہیں۔
اس اضافے کی ایک بڑی وجہ ملک میں سولر پینلز کی قیمت میں آنے والی کمی ہے۔
سولر فروخت کرنے والے عدیل احمد کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں جس رفتار سے سولر کی قیمت کم ہو رہی ہے اور لوگ خرید رہے ہیں ہمیں تو لگتا ہے عنقریب سولر پینل ریڑھیوں پر بکیں گے۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس وقت سولر پینل کی قیمت پاکستان میں تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔ اس کی وجہ سے سولر سسٹم لگانے کا خرچ گذشتہ چند ماہ میں مسلسل کم ہوا ہے۔ ان کے خیال میں آنے والے دنوں میں اس کے اوپر جانے کے بھی کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔
سولر پینلز کی طلب میں اچانک اتنا اضافہ کیوں ہوا؟
سولر سسٹم کا کاروبار کرنے والوں نے بی بی سی کو بتایا کہ قیمتوں میں کمی اور واپڈا کی بجلی مہنگے ہونے کی وجہ سے گذشتہ چند ماہ میں سولر کی مانگ میں بہ پناہ اضافہ ہوا ہے۔
لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن کے رہائشی معاذ نعمان نے بجلی کے بھاری بل سے بچنے کے لیے گھر پر سولر سسٹم لگانے کا فیصلہ کیا۔
ان کے والد تھوڑا ہچکچا رہے تھے۔ انھیں ڈر تھا کہ سولر ہینلز لگوانے پر خرچ زیادہ تھا اور اگر فائدہ نہ ہوا تو پیسے ضائع نہ ہو جائیں۔
تاہم لگ بھگ دو برس بعد اب گذشتہ کئی مہینوں سے معاذ نعمان کے گھر کا بجلی کا بل ’صفر‘ آ رہا ہے۔ ان کو ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرنا پڑتا۔
وہ کہتے ہیں ’ہمارا سال میں صرف جون اور جولائی کے دو مہینوں میں بل آتا ہے وہ بھی کم ہے۔ اس کے علاوہ سارا سال ہمیں بل نہیں آتا۔‘
انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے گھر میں بجلی کے لوڈ کو اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ زیادہ بجلی استعمال کرنے والے برقی آلات جیسے ایئرکنڈیشنر وغیرہ وہ واپڈا یا گرڈ کی بجلی پر چلاتے ہیں جبکہ کم بجلی خرچ کرنے والے آلات وہ سولر پر چلاتے ہیں۔
’ہمارے گھر کی ضرورت لگ بھگ چھ کلو واٹ تھی اور ہمارا ہائبرڈ سسٹم بھی اتنا ہی تھا۔ لیکن لائن لاسز کی وجہ سے سسٹم کی صلاحیت ساڑھے چار کلو واٹ کے قریب بچتی تھی۔ پھر میں اس میں اضافہ کر کے سات کلو واٹ تک لے گیا۔ اب ہم اپنی ضرورت سے اضافی بجلی بنا رہے ہیں۔‘
معاذ نعمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اپنے گھر کی چھت پر لگے سولر پینلز سے وہ اتنی زیادہ بجلی پیدا کر رہے ہیں کہ اپنی ضرورت پوری کر کے وہ اضافی بجلی واپڈا کو بیچ دیتے ہیں۔
’اس وقت بھی واپڈا کی طرف ہمارے کافی یونٹس پڑے ہیں۔ ہمارا بل منفی میں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ چند مہینوں کے اندر ہی ہر دوسری چھت پر سولر پینلز نظر آ رہے ہیں۔ دیر سے آئی ہے لیکن اب لوگوں کو سمجھ آ گئی ہے سولر کی۔‘
سولر کا کاروبار کرنے والے کہتے ہیں کہ زیادہ تر لوگ یہی ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے سولر سسٹم کا رخ کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ معاذ نعمان جیسے بجلی کے صارفین بجلی خریدنے والوں سے بجلی بیچنے والے کیسے بن گئے اور کیا چھت پر سولر نصب کر کے اتنی بجلی بنائی جا سکتی ہے اور یہ واپڈا کو بیچی کیسے جاتی ہے؟
پھر سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایسا کرنا ممکن ہے تو کیا پاکستان میں صرف اس عمل سے اتنی سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے کہ عام آدمی کو بجلی کے بھاری بھرکم بلوں اور لوڈ شیڈنگ سے نجات مل جائے۔
سولر سے بجلی کا بل زیرو کیسے کیا جا سکتا ہے؟
1۔بجلی کی کھپت کا تعین
معاذ نعمان کہتے ہیں کہ اس کے لیے سولرسے پیداوار اور بجلی کی خرید و فروخت کے نظام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
معاذ نعمان کے مطابق آپ کو صرف یہ تخمینہ لگانا ہے کہ آپ کے گھر کا بجلی کا لوڈ یا کھپت کتنی ہے اور پھر آپ نے اس کے حساب سے سسٹم لگانا ہے۔
’اس کے بعد جو اضافی یونٹس پیدا ہوں گے وہ آپ واپڈا کو بیچ دیں گے۔ یہی یونٹس رات کے وقت آپ استعمال کریں گے۔‘
اس طرح آپ دونوں کا حساب برابر رہے گا۔ لیکن اگر آپ اتنے زیادہ یونٹس بنا رہے ہیں جو رات میں استعمال کرنے کے بعد بھی فالتو بچ رہے ہیں تو وہ آپ کے کھاتے میں جمع ہوتے جائیں گے اور آپ کا بل منفی میں آیا کرے گا۔
2۔ نیٹ میٹرنگ
گھر کے لوڈ کا تعین کرنے کے بعد باری آتی ہے اس چیز کی کہ آپ واپڈا کو اضافی یونٹ کیسے دیں گے۔
اس کے لیے آپ کو ’نیٹ میٹرنگ‘ کے نظام کی ضرورت ہو گی۔ اس میں آپ کا سسٹم ایک گرین میٹر کے ذریعے واپڈا کے گرڈ کے ساتھ منسلک ہو جاتا ہے اور آپ اپنی چھت پر لگے سولر سسٹم سے بننے والی اضافی بجلی واپڈا کو فراہم کر سکتے ہیں۔
لاہور میں سولر فروخت کرنے والی ایک کمپنی کے سیلز ایگزیکیٹو عدیل احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ اس انتظام کے تحت جو بجلی آپ سولر پینلز کے ذریعے پیدا کر رہے ہوتے ہیں وہ واپڈا کو جا رہی ہوتی ہے۔
’جتنے یونٹس آپ بنا رہے ہوں گے وہ واپڈا ایک مخصوص قیمت پر آپ سے خرید رہا ہوتا ہے۔ جتنے پیسوں کے یونٹس وہ آپ سے خریدے گا اس کے عوض وہ اپنی بجلی کے یونٹس آپ کو بیچے گا جو آپ اپنے گھر میں استعمال کریں گے۔ یوں آپ اپنا بجلی کا بل کافی حد تک کم کر لیں گے۔‘
لاہور کے ہال روڈ پر سولر پینلز کا کاروبار کرنے والے محمد انس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس کی وضاحت کی۔ ’ایک دس کلو واٹ کا نیٹ میٹرنگ والا سولر سسٹم اتنی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ ایک مہینے میں آپ کے لیے آٹھ سو یونٹس اضافی بجلی پیدا کرے۔ ایک عام گھر کی اوسط بجلی کی کھپت بھی لگ بھگ اتنی ہی ہوتی ہے تو اس طرح اس گھر کا بجلی کا بل صفر ہو سکتا ہے۔‘
تو سولر لوڈ شیڈنگ سے کیسے نجات دلا سکتا ہے؟
تاہم اس انتظام میں دقت یہ ہے کہ جب واپڈا کی لوڈشیڈنگ ہو گی تو آپ کے پاس بھی بجلی نہیں ہو گی۔ محمد انس کہتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ سے بچنے کے لیے ’ہائبرڈ سولر سسٹم‘ استعمال کرنا پڑے گا جس میں بیٹریاں نصب ہوئی ہوتی ہیں۔
’ہائبرڈ کا مطلب یہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ والے سسٹم کے ساتھ بیٹریاں لگی ہوئی ہیں تو سولر پلیٹس جو بجلی پیدا کر رہی ہوتی ہیں وہ واپڈا کے جانے کے ساتھ ساتھ ان بیٹریوں کو چارج کرتی رہتی ہے جس سے آپ کا بیک اپ تیار ہو جاتا ہے۔‘
لوڈ شیڈنگ یا واپڈا کی بجلی میسر نہ ہونے کی صورت میں یہ بیٹریاں آپ کو بجلی فراہم کرتی رہتی ہیں۔
محمد انس کہتے ہیں ’اس سسٹم کا فائدہ یہ ہے کہ بیک اپ بنانے کے ساتھ ساتھ اس سسٹم سے آپ واپڈا کو بجلی فروخت کرتے رہتے ہیں۔‘
یوں آپ کا بل بھی کم آتا ہے اور آپ لوڈشیڈنگ سے بھی بچ سکتے ہیں۔
ان دونوں سسٹمز میں واپڈا کے بجلی کے نظام کے ساتھ منسلک ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن ان کے علاوہ ایک اور طریقہ آف گرڈ سسٹم ہے جس میں آپ واپڈا سے مدد لیے بغیر بھی اپنے مکان کو بجلی فراہم کر سکتے ہیں۔
سولر سسٹم کا کاروبار کرنے والی کمپنی کے سیلز ایگزیکیٹو عدیل احمد کہتے ہیں کہ ’مکمل طور پر آف گرڈ جانا بھی ممکن ہے لیکن اس میں بیٹریوں پر سارا بوجھ پڑتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ جب رات کے وقت یا ابر آلود موسم کے دوران بیٹری میں محفوظ بجلی چند گھنٹوں میں ختم ہو جاتی ہے تو وہ بند ہو جائیں گی تاہم اگر آپ کی بجلی کی ضرورت صرف دن کے وقت یا رات میں محض چند گھنٹے ہو تو یہ آف گرڈ سسٹم بہتر رہتا ہے۔
ایک عام گھر کے لیے کتنے بڑے سولر سسٹم کی ضرورت ہوتی ہے؟
عدیل احمد کہتے ہیں کہ سولر سسٹم نصب کرنے کے لیے ڈیزائن گھر کے رقبے کے حساب سے نہیں بنایا جاتا بلکہ اسے گھر کی بجلی کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا جاتا ہے۔
‘عام طور پر ایک چھوٹے مکان کی بجلی کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے کم از کم تین کلو واٹ کا سولر سسٹم موزوں رہتا ہے۔ اس سے چھوٹے سسٹم کا فائدہ نہیں مل پائے گا۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس سسٹم میں چھ سولر پلیٹس، ایک انورٹر اور دو بیٹریاں شامل ہوتی ہیں۔
عدیل احمد کے مطابق تین کلو واٹ کا ہائبرڈ یا آف گرڈ سسٹم پانچ سے آٹھ لاکھ روپے میں پڑتا ہے۔ قیمت میں اونچ نیچ کا دارومدار اس بات پر ہو گا کہ آپ کون سی قسم کا انورٹر استعمال کرتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ انورٹرز مہنگے ہوتے ہیں ورنہ سولر پینلز بہت سستے ہو چکے ہیں کیونکہ ان کی درآمد پر ڈیوٹی یعنی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔
خیال رہے کہ حکومت نے سولر کی طرف لوگوں کو مائل کرنے کے لیے ٹیکس میں یہ چھوٹ دے رکھی ہے۔
لیکن اگر حکومت ٹیکس لگا دے؟
حال ہی میں مقامی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں سامنے آئی ہیں کہ حکومت کو سولر استعمال کرنے والے گھریلو صارفین پر ایک فکسڈ ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس تجویز میں 12 کلو واٹ یا اس سے زیادہ کے سسٹم لگانے والوں پر ٹیکس لگانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ چھتوں سے بننے والی جو بجلی حکومت کو خریدنی پڑ رہی ہے وہ اس بجلی کے علاوہ ہے جس کے لیے وہ بجلی بنانے والی کمپنیوں سے معاہدے کر چکی ہے۔
اس طرح اسے اس بجلی کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے چاہے وہ اس کو استعمال کرے یا وہ اضافی ہو۔ تاحال حکومتی سطح پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی کہ ایسا کوئی ٹیکس لگایا جائے گا تاہم صارفین کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو یہ حکومت کی طرف سے زیادتی ہو گی۔
لاہور کے شہری معاذ نعمان کہتے ہیں کہ ’باقی دنیا میں ہر جگہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کی جاتی ہے اور ہمارے لیے یہ مشکل بنا دیں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’سولر لگانے میں تمام تر خرچہ بھی صارف کا ہوتا ہے اور محنت بھی وہی کرتا ہے تو الٹا حکومت اس میں سے پیسے لے تو یہ زیادتی ہو گی۔‘
تاہم سولر سسٹمز کا کاروبار کرنے والے افراد کا خیال ہے کہ اس بات کے امکانات کم ہیں کہ حکومت چھوٹے گھریلو صارفین کے لیے ایسا کوئی قدم اٹھائے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو اس سے کاروبار یا صنعتیں زیادہ متاثر ہوں گی جنھوں نے کئی سو کلو واٹ کے سسٹم لگا رکھے ہیں۔